غزل
کاغذوں پر مفلسی کے مورچے سر ہو گئے
اور کہنے کے لئے حالات بہتر ہو گئے
پیاس کی شدّت کے ماروں کی اذیت دیکھئے
خشک آنکھوں میں ندی کے خواب پتھر ہو گئے
ذرّا ذرّا خوف میں ہے گوشہ گوشہ جل رہا
اب کے موسم کے نہ جانے کیسے تیور ہو گئے
سب کے سب سلجھا رہے ہیں آسماں کی گتھیاں
مسلۓ سارے زمیں کے حاشیے پر ہو گئے
اک بگولا دیر سے نظروں میں ہے ٹھہرا ہوا
گم کہاں جانے وہ سارے سبز منظر ہو گئے
پھول اب کرنے لگے ہیں خودکشی کا فیصلہ
باغ کے حالات دیکھو کتنے ابتر ہو گئے
ہم نے تو پاس ادب میں بندہ پرور کہہ دیا
اور وہ سمجھے کہ سچ میں بندہ پرور ہو گئے
منش شکلا