ناخداؤں کی سرپرستی میں
جی رہے ہیں خدا کی بستی میں
سنگ ساری سے در نہیں لگتا
چوٹ کھائی ہے گل پرستی میں
رہن رکھنی پڑی ہیں تعبیریں
خواب دیکھا تھا تنگ دستی میں
ایری غیری شراب مت چھونا
فرق ہوتا ہے مہنگی سستی میں
تیرے چاہے بغیر مٹ جائے
اتنی جرأت کہاں ہے ہستی میں
لوگ پتھر کے ہو گئے دیکھو
اتنا ڈوبے ہیں بت پرستی میں
جب سے آتش فروش اے ہیں
آگ لگنے لگی ہے بستی میں
چلتے چلتے نکل گئے خود سے
ہم بھی دیوانگی کی مستی میں
اب تو ہم کو عروج پر لاؤ
کب سے ڈوبے ہوئے ہیں پستی میں
منیش شکلا