اسنے ممکن ہے آزمایا ہو
وہ بہانے سے لڈ کھڈاایا ہو
ہو بھی سکتا ہے بھیڈ میں اتنی
وہ مجھے دیکھ ہی نہ پایا ہو
نیند ٹوٹی ہو یہ بھی ممکن ہے
ہو بھی سکتا ہے خواب آیا ہو
کیوں کسی غم کو میں کروں رخصت
ایک آنسو بھی کیوں پرایا ہو
کاش وہ جنگلوں میں بھٹکا ہو
اور رستہ نہ بھول پایا ہو
اب کوئی فرق ہی نہیں پڑتا
دھوپ برسے کہ سر پہ سایا ہو
تب چمک دیکھ سبزہ زاروں کی
دشت جب دھوپ میں نہایا ہو
منیش شکلا