غالب اور انکےعہد کا لکھنؤ
مرزا اسد الله خان غالب اردو ادب کا ایک ایسا درخشاں ستارہ ہے جسکی چمک
تقریباً دو صدی بعد بھی توانا بنی ہوئی ہے اور جسکی تابانی میں روز بروز
اضافہ ہوتا جا رہا ہے . عام آدمی کی نظر میں مرزا غالب اور اردو
شاعری ایک دوسرے کے ہم معنی تصوّر کئے جاتے ہیں .
آج کے اجتماع کا اہتمام مرزا غالب اور انکے عہد کا لکھنو موضوع پر بات
کرنے کے لئے کیا گیا ہے. مرزا غالب کے عہد سے لیکر آج تک انکی شخصیت اور شاعری پراتنا کچھ لکھا جا چکا ہے جو کسی دوسرے شاعرکو میسّر نہ
ہوا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے . ادب سے وابستہ شخص غالب کے بارے میں اتنی معلومات رکھتا ہے جتنا شاید غالب بھی اپنے بارے میں نہیں رکھتے رہے ہونگے .
مرزا غالب اپنے آپ میں خود ایک عہد ہیں . لکھنؤ کیا پورے ہندوستان کی تاریخ
مرزا غالب کا احاطہ کیے بغیر نامکممل ہے . فی الحال ہم مرزا غالب اور انکے عہد کے لکھنو کا جائزہ لینے کی کاوش کرتے ہیں. جیسا کہ سب جانتے ہیں مرزا غالب کی پیدایش ٢٧ دسمبر ١٧٩٧ میں ہوئی تھی .
اس وقت ہندوستان پر مغلوں کی حکومت تھی اورشاہ عالم دوئم بادشاہ تھے . اس
وقت اودھ کا صوبہ مغل بادشاہ کے زیراقتدار تھا اورنواب وزیر علی خان اودھ کا
انتظامیہ دیکھ رہے تھے . لکھنو ١٧٧٥ میں اودھ کی راجدھانی بنا دیا گیا تھا .تب
نواب آصف الدولہ اودھ کے نواب ہوا کرتے تھے .نواب وزیر علی انکے بعد ١٧٩٧ (غالب کی پیدایش کے سال ) میں اودھ کے نواب ہوے . غالب جب پانچ برس کے تھے تو انکے والد ایک مغل سپہسالار کا کام انجام دیتے ہوے الور کی جنگ میں شہید ہوے . غالب کی پرورش انکے چچا مرزا نصراللہ بیگ خان نے کی .١٣ برس کی عمر میں مرزا کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی اور وہ آگرا سے دھلی جا بسے .
کہا جاتا ہے کہ مرزا غالب نے ١١ برس کی عمر سے ہی شاعری کے میدان میں طبع آزمائی شروع کردی تھی . یہ وہ وقت تھا جب اودھ کا صوبہ نواب سعادت
علی خان کی نوابی میں پھل پھول رہا تھا . اس وقت اودھ کا صوبہ براے نام مغل
سلطنت کا حصّہ ہوا کرتا تھا جو کہ ١٨١٩ تک مغل سلطنت کا صوبہ بنا رہا .
ویسے اودھ کی حکومت کا حال بھی بہت اچھا نہیں تھا .نواب سعادت علی خان پر
پورا قبضہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا ہوا کرتا تھا . سن ١٨٠١ سے ہی اودھ کا فوجی
انتظام ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں میں دیا جا چکا تھا . یہی وقت تھا جب غالب
کی شاعری پروان چڈھہ رہی تھی اور مغل سلطنت کے پیر لڈکھڈا رہے تھے
.ویسے تو مغل سلطنت کا زوال افغانی حملوں کے وقت سے ہی شروع ہو چکا تھا
لیکن اس وقت تک مغلیہ سلطنت کے زیادہ تر علاقے اسکے اقتدار سے باہر ہو
چکے تھے اور مغل بادشاہ بس نام بھر کا بادشاہ رہ گیا تھا . یہ وقت مغلیہ تہذیب و
وقار کے انتشار کا تھا . غالب کی شاعری میں اس انتشار و زوال کے ساۓ جگہ
جگہ نقش گزار ہوتے ہیں .اسی وقت اودھ کے صوبے نے مغل سلطنت سے ناتا
توڑ کر نواب غازی الدین حیدر کی کمان میں اپنے آزاد وجود کا اعلان کر دیا اور لکھنو اودھ کے آزاد بادشاہ کے زیر سایہ ایک عظیم تہذیبی اور ادبی مرکز
کی شکل میں ابھرنے لگا .
اس وقت مغلیہ سلطنت کی چمک ماند پڑ رہی تھیں اور اودھ ایک آزاد مملکت کی
حیثیت حاصل کئے ہوئے تھا . ادب , تہذیب, موسیقی , تعمیر , تعلیم سبھی معاملوں میں مغل سلطنت کی برابری کرنے کا جوش اودھ کے حکمرانوں کے دلوں میں امڈ رہا تھا جو پوری قووت سے اودھ اور لکھنو کی تہذیب کو پروان چڑھانے میں لگے ہوے تھے . بڑے بڑے موسیقی کار , ادیب , شاعر , معمار اودھ کے بادشاہ کی سرپرستی میں سکون اور آرام کے ساتھ اپنی اپنی تخلیق انجام دے رہے تھے . لکھنو میں ایک سے ایک نایاب عمارتوں کی تعمیر ہوئی , محفلیں پروان چڈھیں اور شعر و ادب کے نیے نیے معرکے سر ہوے .
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں یہ وقت دہلی کے ادبی ماحول کے زوال
پزیر ہونے کا تھا . غالب ان حالات میں اپنی شعری کاوشوں کو انجام دینے میں لگے ہوے تھے اور ذاتی زندگی کے صدمات سے بری طرح مغموم تھے . ایک
کے بعد ایک ٧ اولادوں کو کھونے کا غم ,معاش کی قلّت ,سلطنت کی خراب ہالی
سے وابستہ اپنی خستہ حالی اور روز در روز بیرونی طاقت کا مغلیہ سلطنت پر کستا ہوا شکنجہ غالب کو پریشان کئے ہوئے تھا . یوں تو استاد ذوق کےبعد بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے انہیں اپنا اور شاہزادے مرزا فخرو کا استاد مقرّر کر دیا تھا اور دبیرالملک اور نجم الدولہ کے خطاب سے انہیں نوازا تھا پھر بھی اس جنّت کی حقیقت سے غالب اچھی طرح سے واقف تھے .
جب دہلی کی تہذیبی روایتیں اپنی آخری سانسیں گن رہی تھی تب لکھنو ادیبوں اور کلاونتوں کےلئے باعث تسکین پناہ گاہ ثابت ہو رہا تھا .میر تقی میر ٦٠ برس کی
عمر میں دہلی چھوڑکر لکھنو آ چکے تھے اور نواب آصف الدولہ کی کرم فرما
سعادتوں کےطفیل اپنی زندگی کچھ حد تک سکوں سے گزارتے ہوے اپنی شاعری میں لگے ہوے تھے . میر کی لکھنو میں موجودگی کی وجہ سے لکھنو کی اردو
شاعری خاص طور پر غزل کی شاعری کو نیا رنگ میسّر ہوا . یوں تو
لکھنو میں اردوشاعری کی با قائدہ شروعات سراج الدین خان آرزو(١٦٨٧-
١٧٥٦ )اور مرزا محمّد رفیع سودا(١٧١٣ -١٧٨١ )کی آمد کے ساتھ ہو چکی تھی لیکن غالب کےعہد تک لکھنو میں میر ببر علی انیس , مرزا سلامت علی دبیر
,غلام ہمدانی مصحفی ,شیخ امام بخش ناسخ ,مرزا حیدر علی آتش اور پنڈت دیا
شنکر نسیم جیسے اعلیٰ درجے کے شعراء کے کلام نے وہ چکاچوندھ پیدا کی جس سے ادبی دنیا کی آنکھیں چندھیا گیں . مرثیہ خوانی میں انیس اور دبیر نے وہ جوہردکھلاۓ کہ آج تک اردو ادب ان پر ناز کرتا ہے .
اس وقت مصحفی لکھنو کی غزل گوئی کو پروان چڈھا رہے تھے اور اردو غزل
کو مزید اونچایاں بخش رہے تھے . کہا جاتا ہے کہ دکنی , ریختہ ,ہندوی کو اردو
کہنے کا چلن مصحفی سے ہی شروع ہوا . اسکے پہلے انشا الله خان انشا لکھنو کی غزل کے نوک پلک سوارنے کا کار انجام دے چکے تھے .
غالب کے عہد کا یہ وہ وقت تھا جب ناسخ لکھنوی غزل کو نئی تب و تاب عطا کر رہے تھے اور حکیم مہدی سے جھگڑا مول لے کر لکھنو چھوڑنے پہ مجبور
ہوے تھے . حکیم مہدی کے انتقال کے بعد ناسخ پھر لکھنو لوٹ آ ے تھے . اسی وقت ناسخ کے ہم عصر مرزا حیدر علی آتش اپنے خوبصورت کلام سے اردو
غزل کی زلف سنوارنے میں پوری شدّت سے لگے ہوے تھے . ناسخ اور آتش کی آپس میں رقابت چلتی تھی .ان دونوں کی شاعری کا وقت لکھنو غزل کا سنہرا عہد گولڈن ایرا تسلیم کیا جاتا ہے .
اس دوران مرزا شوق اور پنڈت دیا شنکر نسیم مثنوی کے میدان میں اپنے جوہر دکھلا رہے تھے . نسیم کی مثنوی گلزار نسیم ، گل بکاولی مثنوی شاعری میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے . انکے علاوہ اس وقت لکھنو میں کئی دیگر شعراء اپنے کلام سے لکھنو کو سرشار کر رہے تھے جنکی تفصیل مقالے کی تنگ دامنی کی وجہ سے دینا ممکن نہیں ہے .
یہ وہ دور تھا جب دہلی کی آب و ہوا بگڑی ہوئی تھی اور غالب اپنی اور دہلی کی
خستہ حالی کے درمیان اردو شاعری کو اپنے لہو سے سینچ رہے تھے . دہلی میں استاد ذوق کا بول بالا تھا اور غالب سے انکی لاگ ڈاٹ چلتی تھی . غالب کی
شاعری میں جگہ جگہ اس رقابت کی پرچھاییاں نظر آتی ہیں ....بنا ہے شہ کا
مصاحب پھرے ہےاتراتا ...
اسی وقت لکھنو کے دو عظیم شاعر انیس اور دبیر بھی اپنی اپنی انا کی تلواریں
لئے ہوے بر سر پیکار تھے . انکے شاگردوں میں بھی آپس میں جھگڑے چلتے
رہتے تھے .اسی طرح ناسخ اور آتش کی ادبی رنجشیں لکھنؤ کی عوامی گفتگو
کا مرکز بنی رہتی تھیں .
یہ ایک عجیب بات ہے کہ دہلی کی زوال پزیر فضا میں بھی وہی انا کے جھگڑے
ادیبوں میں چل رہے تھے جو لکھنو کی خوش حال اور ترقی یافتہ تہذیب میں رواں تھے .
لکھنو میں اس وقت گائیکی کی ایک نئی طرز ٹھمری اپنے عروج پر پہنچ رہی
تھی .موسیقی کی محفلوں سے اودھ کی شامیں گلزار تھیں اور شریفزادے طوائفوں
کے پاس شرفاء کے آداب سیکھنے جایا کرتے تھے . پتنگبازی ,بٹیر بازی اور تیتر
بازی زوروں پر تھی . شرفا و امراء شطرنج کی بساطوں میں مصروف رہا کرتے تھے . طوایف بازی رئیسوں کا ایک اہم شغل تھا . لیکن یہ رنگ ریلیاں بہت دن تک قایم نہ رہ سکیں . جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے رفتہ رفتہ ایسٹ انڈیا کمپنی اودھ کے صوبہ کو اپنے فولادی شکنجوں میں جکڑتی جا رہی تھی . اس وقت کمپنی کا منشا پورے اودھ کو ہڑپنے کا تھا . ١٨٥٦ میں نواب واجد علی شاہ گرفتار کر لئے گئے اور صوبہ اودھ پر کمپنی کا عمل قایم ہو گیا . پورا اودھ اس سانحے سے مغموم و مایوس ہو گیا اور ماحول میں ایک عجیب سا انتشار پیدا ہو گیا .
ادھر ١٨٥٧ میں میرٹھ میں غدر کا بگل بج اٹھا جسکی آواز بہت جلد دہلی تک
پہنچ گئی اور باغی فوجوں نے ضعیف بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے پرچم تلے کمپنی
کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا . آزادی کی اسی جنگ کو انگریزوں نے غدر کا نام دیا . بہت جلد پورا شمالی ہندوستان غدر کی گرفت میں آ گیا . لکھنو نے بھی تباہی اور لوٹ کا خوفناک منظر دیکھا .لکھنو کی ادبی اور پرسکون فضا تار تار ہو گیی .محفلیں اجڈ گیں اورزندگی کی ہما ہمی کچھ وقت کے لئے تھم سی گیئ لیکن شاعروں کی تخلیق جاری رہی .
یہ وہ وقت تھا جب مرزا غالب نے اپنے بہترین کلام سے اردو شاعری کو علم و
تصوّف کی دنیا میں اعلیٰ مقام بخشا . ادھر انیس ,دبیر ,ناسخ ,آتش ,مصحفی ,ناطق ، دیاشنکر نسیم جیسے شعراء نے لکھنؤ کی شاعری کا پرچم پوری دنیا میں بلند کیا . غالب نے مغل سلطنت کی تباہی ,بادشاہ کی گرفتاری اور جلا وطنی اور شہزادوں کے قتل کے منظر دیکھے تو اسی وقت لکھنو نے اپنے جان عالم کی گرفتاری اور ہجرت کا ماتم منایا . دہلی اور اودھ پر سیدھے برطانیہ کی حکومت کا آغاز ہوا .
غالب غدر کے بعد تقریباً ١٢ برس حیات رہے . لیکن یہ وقت انکی تکلیفوں اور فاقہ کشی کا تھا اور سخت علالت کے عالم میں غالب ١٥ فروری ١٨٦٩ کو اس فانی دنیا کو الوداع کہ گئے . غالب کے پیچھے پیچھے انیس اور دبیر بھی اپنی تخلیق کا کام جاری رکھتے ہوے عالم فانی سے کوچ فرما گئے . ناسخ ,آتش دیاشنکر نسیم , مصحفی وغیرہ غدر کی بدحالی دیکھنے سے پہلے ہی آنکھیں موند چکے تھے .
غالب غدر کے بعد تقریباً ١٢ برس حیات رہے . لیکن یہ وقت انکی تکلیفوں اور فاقہ کشی کا تھا اور سخت علالت کے عالم میں غالب ١٥ فروری ١٨٦٩ کو اس فانی دنیا کو الوداع کہ گئے . غالب کے پیچھے پیچھے انیس اور دبیر بھی اپنی تخلیق کا کام جاری رکھتے ہوے عالم فانی سے کوچ فرما گئے . ناسخ ,آتش دیاشنکر نسیم , مصحفی وغیرہ غدر کی بدحالی دیکھنے سے پہلے ہی آنکھیں موند چکے تھے .
اسکے بعد سن ١٨٧٧ میں لکھنو اور مغربی صوبوں کو یکجا کر کے نارتھ ویسٹ
پروونس اینڈ اودھ کے صوبہ کی بنیاد رکھی گیی . سن ١٩٢٠ میں غالب کے آگرا اور اودھ کا مستقبل یکجا ہو گیا جسے یونایٹڈ پروونس کہا گیا اور لکھنو اسکا مرکز بنا .
منیش شکلا