پالکی روک لو بہاروں کی
آخری شام ہے نظاروں کی
اب سبق حفظ ہو گیا ہم کو
اب ضرورت نہیں اشاروں کی
اس میں پربت کا دل پگھلتا ہے
یہ کہانی ہے آبشاروں کی
راستہ بھی ہے خارزاروں کا
منزلیں بھی ہیں خارزاروں کی
ہم ستارے بھی توڈ لاتے تھے
شرط رکھتے تھے ماہپاروں کی
خود کو ایسے اداس مت رکھیے
جان جاتی ہے غم گساروں کی
جانثاری کی بات کی جاۓ
یہ ہے توہین جانثاروں کی
آپ خود کو سنبھال کر رکھیے
آپ تصدیق ہیں بہاروں کی
اب سحر تک اداس رہنا ہے
روشنی بجھ گیئ شراروں کی
منیش
No comments:
Post a Comment