سحر سے شام رہتی ہے یہی مشکل مرے آگے
کبھی رستہ مرے آگے کبھی منزل مرے آگے
کبھی ماضی کی وحشت ہے کبھی فردا کی دہشت ہے
مرا مقتل مرے پیچھے مرا قاتل مرے آگے
نہ کچھ کہتے بنا مجھسے نہ کچھ کرتے بنا مجھسے
مرا د شمن مرے گھر میں ہوا داخل مرے آگے
سمندر کے بہت سے راز پنہا ہیں مرے دل میں
بہت سی کشتیاں ڈوبیں سر ساحل مرے آگے
مداوا کر مداوا کر مداوا کر محبّت کا
یہ کہکے پھوٹ کر رویا دل بسمل مرے آگے
مری دکھتی ہوئ رگ کو اچانک چھو دیا تمنے
یہ کسکا ذکر لے آے سر محفل مرے آگے
ابھی بس خاک ہے خاشاک ہیں صحرا نوردی ہے
سفر کے بعد آےگا مرا حاصل مرے آگے
منش شکلا
No comments:
Post a Comment