دشت میں خاک اڑانے سے کہاں تک بچتے
ہم ترا ہجر منانے سے کہاں تک بچتے
اتنے پر لطف اشارے تھے ترے لفظوں میں
ہم تری بات میں آنے سے کہاں تک بچتے
جس سے ملتے وہ تجارت پہ اتر آتا تھا
خود کو بازار بنانے سے کہاں تک بچتے
ہم نے ہر جرم سر بزم کیا تھا تسلیم
لوگ پھر سنگ اٹھانے سے کہاں تک بچتے
ہم کو ہر طور زمانے سے گزر کرنا تھا
ہم بہر حال زمانے سے کہاں تک بچتے
ہم ہی ہر بار ہدف بن کے چلے آتے تھے
تم بھی پھر تیر چلانے سے کہاں تک بچتے
ایک دن جان گیا سارا زمانہ جس کو
خود کو وہ بات بتانے سے کہاں تک بچتے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment