غزل
حسیں خوابوں کے بستر سے اٹھانے آ گئے شاید
نے سورج مری نیندیں اڑانے آ گئے شاید
بہت مایوس نظروں سے ہماری اور تکتی ہے
سفیران سحر شب کو بلانے آ گئے شاید
کہانی اک نے عنوان پہ آنے ہی والی تھی
مگر پھر بیچ میں قصّے پرانے آ گئے شاید
لبوں پر مسکراہٹ ٹانک لیتے ہیں سلیقے سے
ہمیں بھی درد کے رشتے نبھانے آ گئے شاید
ہمارا درد آسکوں میں نہیں شعروں میں ڈھلتا ہے
ہمیں بھی ٹھیک سے آنسو بہانے آ گئے شاید
ہماری وحشتیں حد سے زیادہ بڑھ گئں آخر
ہمارے رقص کرنے کے زمانے آ گئے شاید
ہمارا نام لے لیکر پکارے ہے ہر اک شے کو
سنا ہے ہوش منزل کے ٹھکانے آ گئے شاید
منش شکلا
No comments:
Post a Comment