گر ادھر چلے آتے تم کسی بہانے سے
ہم نجات پا جاتے دو گھڈی زمانے سے
جب کبھی اکیلے میں پاس آ کے بیٹھی ھے
لگ کے خوب روے ہیں زندگی کے شانے سے
صرف اشک دے کر ہی تم خرید سکتے ہو
ہم نکل کے آے ہیں درد کے خزانے سے
شب کو شب بنانے کے اور بھی شرایط ھیں
رات ہو نهیں جاتی چاند جگمگانے سے
درد تھا قرینے سے چھپ کے رو لئے ہو تے
کیا ملا بھلا اس کو مدعا بنانے سے
ایک دن ستاروں سے مل کے ان سے پو چھینگے
ا وب کیوں نهیں جاتے روز جھلملانے سے
یہ الگ کہ أخر میں ہم ہی جیت جاینگے
فائدا نہیں لیکن بات اب بڑھانے سے
عمر بھر کی رندی نے بس یهی سکھایا ہے
پیاس اور بڈھتی ہے پیاس کو بجھانے سے
دکه تو ہے حسیں منظر آنکھ سے ہوا اوجھل
نیند کھل گیئ لیکن خواب ٹوٹ جانے سے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment