غزل
بہلنے لگی ہے ذرا سی نمی سے
بھروسا ہی اٹھنے لگا تشنگی سے
بہت بے نیازی دکھائی تھی ہمنے
سو وہ بھی جدا ہو گیا بے رخی سے
بہت دن کا غصّہ اتارا کسی نے
اچانک الگ ہو گیا زندگی سے
تمھیں ہم سناتے ہیں اپنی کہانی
مگر اس کا چرچہ نہ کرنا کسی سے
تمہارے لئے غم اٹھانے پڑینگے
تمھیں ہم نے چاہا ہے اپنی خوشی سے
اب اس کے پلٹنے کا امکاں نہیں ہے
وہ اٹھ کر گیا ہے بڑی بے دلی سے
بہت بے تکلّف نہ ہو پاے ہم بھی
سو وہ بھی نہ آگے بڑھا دللگی سے
ہمیں آج اپنے ا ندھیرے ملے ہیں
مخاطب ہوئے ہیں نئی روشنی سے
بس اب یاد آنے کی زحمت نہ کرنا
تمھیں ہم بھلاتے ہیں لو آج ہی سے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment