غزل
آؤ ہم تم دونوں مل کر دنیا کو ٹھکراتے ہیں
باہر سے زندہ رہتے ہیں اندر سے مر جاتے ہیں
جانے کب تک صورت نکلے چارہ گر کے آنے کی
تب تک اپنی سانسوں سے ہی زنجیریں پگھلاتے ہیں
اپنی مدہوشی کا عالم دیواروں نے دیکھا ہے
ہم اپنے دل کا پیمانہ خلوت میں چھلکاتے ہیں
تجھ کو کڑوی لگتی ہیں تو شاید کڑوی ہی ہونگی
ہم تو بس تیری باتوں کو جیوں کا تیوں دہراتے ہیں
دنیا والوں سے کیا چرچا کرتے اپنے زخموں کا
وہ باتیں کرنے سے تو ہم خود سے بھی کتراتے ہیں
یوں تو تم کو برسوں پہلے ہم نے اپنا مان لیا
پھر بھی اب تک نام تمہارا لینے میں شرماتے ہیں
دنیا والے ہنستا گاتا چہرہ دیکھا کرتے ہیں
ان کو کیا معلوم کہ ہم بھی روتے ہیں جھنجھلاتے ہیں
ہم سے شاید چھوٹ گیا ہے ساماں کوئی رستے میں
رہ رہ کر کیوں پاؤں ہمارے چلتے ہیں رک جاتے ہیں
ایک اکیلا دل دنیا کی ساری باتیں ایک طرف
اک چھوٹی سی کشتی لے کر طوفاں سے ٹکراتے ہیں
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment