صرف بیاباں بچتا ہم میں بالکل جنگل ہو جاتے
شعر نہ کہتے تو ہم شاید اب تک پاگل ہو جاتے
ہم نے وقت پہ جی بھر رو کر خود کو تازہ دم رکھا
آنسو اندر رکھے رہتے تو ہم بوجھل ہو جاتے
سنتے ہیں ہم تم کو چھو کر خوشبو آنے لگتی ہے
کاش ہمارے شانے لگتے ہم بھی صندل ہو جاتے
تم سے ہم کو ملنا ہی تھا ہر صورت ہر حالت میں
تم پربت بن جاتے تو ہم جلکر بادل ہو جاتے
شکر ہے کچھ میناروں کو تم نے یکلخت نہیں ڈھایا
اتنی دھول اڈی ہوتی سب دریا دلدل ہو جاتے
خالق نے سارا سرمایا ڈال دیا اک چہرے میں
اتنی رونق سے تو دونوں عالم اجمل ہو جاتے
کاش مرے مصرعوں سے بالکل اس کی آنکھیں بن جاتیں
کاش مرے الفاظ کسی کی آنکھ کا کاجل ہو جاتے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment