ایک ہی بار میں خوابوں سے کنارا کر کے
بجھ گیئ دید شب وصل نظارہ کر کے
جز ترے اور طریقے بھی نکل سکتے تھے
ہم نے دیکھا ہی نہیں خود کو دوبارہ کر کے
ہم تو بس بولنے والے تھے سبھی کچھ سچ سچ
تم نے اچھا ہی کیا چپ کا اشارہ کر کے
ہم تو صدیوں سے اسی طور بسر کرتے ہیں
تم بھی کچھ روز یہاں دیکھو گذارا کر کے
خود کو سونپا تھا تمھیں ہم کو تمہارا کرنے
تم نے لوٹایا ہمیں ہم کو ہمارا کر کے
کر تے رہتے ہیں بھر وقت تمہارا چرچا
خود کو چھوڈینگے کسی روز تمہارا کر کے
اب یہ دریا یہ تلاطم یہ سفینہ کیا ہے
ہم تو سب بھول گئے تم کو سہارا کر کے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment