وجد میں جب دست و بازو آ گئے
تب جنوں کے ہوش قابو آ گئے
شب گزاری کا وسیلہ ہو گیا
ذہن میں یادوں کے جگنو آ گئے
تشنگی نے اس قدر ماتم کیا
ضبط کی آ نکھوں میں آنسو آ گئے
اس گلی کے موسموں کو یاد کر
درد کی شاخوں پہ ٹیسو آ گئے
جن سے قابو میں کیا جاتا ہے دل
تم کو شاید سب وہ جادو آ گئے
بھر گئی رنگیں حبابوں سے زمیں
پاؤں میں بارش کے گھنگھرو آ گئے
پھر کوئی کالا گھنا بادل دکھا
پھر خیالوں میں وہ گیسو آ گئے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment