کئی چہرے سلامت ہیں کئی یادیں سلامت ہیں
ابھی ٹوٹے ہوئے دل کی کئی کرچیں سلامت ہیں
خیالوں کی لکیریں کیوں ادھورے خواب بنتی ہیں
نہ اب تعبیر باقی ہے نہ وہ آنکھیں سلامت ہیں
ابھی چسپہ ہے میرے ذہن پہ صحرا کا سنّاٹا
ابھی خوابوں میں جلتی پیاس کی چیخیں سلامت ہیں
بھلا تنہائی میں سونا شجر کس سے ہنسے بولے
نہ اب طایر سلامت ہیں نہ ہی شاخیں سلامت ہیں
یہ ہے بہتر حدود وقت کے باہر نکل جایئں
یہاں اب دن سلامت ہیں نہ ہی راتیں سلامت ہیں
مسلسل حافظے پر وقت کی چوٹیں پڑیں لیکن
تری خوشبو سلامت ہے تری باتیں سلامت ہیں
ابھی انکار کی جرات دہکتی ہے مرے دل میں
ابھی تک جسم میں کچھ خون کی بوندیں سلامت ہیں
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment