گھبرا کر افلاک کی دہشت گردی سے
خود کو ہم نے توڈ دیا بے دردی سے
ہم نے خود یہ حال بنایا ہے اپنا
ہم سے باتیں مت کرئے ہم دردی سے
جب خود کو ہر طور بیاباں کر ڈالا
تب جاکر باز آے دشت نوردی سے
اب بھی کیا کچھ کہنے کی گنجایش ہے
سب کچھ ظاہر ہے چہرے کی زردی سے
ہم اک بار بھٹک کر اتنا بھٹکے ہیں
اب تک ڈرتے ہیں آوارہ گردی سے
ہم بھی عشق کی پگڈنڈی سے گزرے ہیں
واقف ہیں پیچ و خم کی سردردی سے
ہم بھی عشق کی پگڈنڈی سے گزرے ہیں
واقف ہیں پیچ و خم کی سردردی سے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment