کام بے کار کے کئے ہوتے
کاش ہم ٹھیک سے جئے ہوتے
رقص کرتے خراب حالی پر
اشک غم جھوم کر پئے ہوتے
درد ناقابل مداوا تھا
ہاں مگر زخم تو سئے ہوتے
در حقیقت تو خواب تھی دنیا
ہم بھی خوابوں میں جی لئے ہوتے
ایک خواہش ہی رہ گئی دل میں
ہم ترے طاق کے دئے ہوتے
تو نہ ہوتا تو اس خرابے میں
سب کے ہونٹھوں پہ مرثیے ہوتے
بزم اپنے عروج پر ہوتی
اور ہم اٹھ کے چل دئے ہوتے
نا مکمّل رہی غزل اپنی
کاش کچھ اور قافئے ہوتے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment