اپنے ہونے کی طلب طلب کرتے ہیں ہم
قید ہستی منتخب کرتے ہیں ہم
جانے کیوں اکثر یہ لگتا ہے ہمیں
کام سارے بے سبب کرتے ہیں ہم
زندگی ک و آج تک سمجھے نہیں
اب تلک نام و نسب کرتے ہیں ہم
آرزو ہمکو تبسّم کی مگر
آنسوں کا بھی ادب کرتے ہیں ہم
جن زمینوں پر کوئی چلتا نہیں
ان زمینوں پر غضب کرتے ہیں ہم
کیا ہوا ؟ ہوگا؟ ہوا جاتا ہے کیا؟
اسکی کچھ پروا ہی کب کرتے ہیں ہم
لوگ حیرانی سے تکتے ہیں ہمیں
کام ہی ایسے عجب کرتے ہیں ہم
منش شکلا
No comments:
Post a Comment