خیالوں کا فلک احساس کے تاروں سے جڑنے میں
رہے مصروف ہم کچھ مشتبہ الفاظ گدھنے میں
ہمیں کچھ اور کرنے کی تو مہلت ہی نہ مل پایئ
ہوا ضایع ہمارا وقت بس ملنے بچھڑنے میں
کہیں برسوں میں جاکر کھل کا سامان جٹ پایا
مگر اک پل لگا اچھا بھلا مجمع اکھڈنے میں
کوئی لمحہ نہیں ایسا کہ جو ہاتھوں میں آیا ہو
گیئ ہے عمر ساری عمر کی تتلی پکڑنے میں
ہم اپنے جرم کا اقبال تو ویسے بھی کر لیتے
عبث جلدی دکھائی یار نے الزام مڈھنے میں
کہیں آخر میں جاکے عشق کا مطلب سمجھ پاے
لگی اک عمر ہمکو عاشقی کا درص پڑھنے میں
اجڑنے کا بہت افسوس ہے لیکن ستم یہ ہے
تمہارا ہاتھ شامل تھا مری دنیا اجڑنے میں
ہوس بچتی ہے سر پر عشق کا الزام لینے سے
محبّت اف نہیں کرتی مگر سولیپہ پہ چڈھنے میں
کیسے دریا کی حاجت ہے کسے سیراب ہونا ہے
مزہ آنے لگا اب ریت پر ایڈی رگدنے میں
منش شکلا
No comments:
Post a Comment