غزل
سوچتے ہیں کہ دل لگانے دیں
خود کو کچھ دن فریب کھانے دیں
جی لگائیں کہیں کسی شے پر
خود کو خود سے نجات پانے دیں
دل تو سادہ مزاج ہے اپنا
مانتا ہے تو مان جانے دیں
ضبط کرتے رہیں قیامت تک
درد کو دائرہ بڑھانے دیں
شب کے ھاتھوپں میں سونپ دیں خود کو
بات کرنے دیں گدگدانے دیں
خود کو ساحل پہ چھوڈ دیں تنہا
ریت پر نقش پا بنانے دیں
زندگی ہے تو لگزشیں بھی ہیں
اس کے قدموں کو ڈگمگانے دیں
اس کے خوابوں کو چھین لیں اس سے
اپنے خوابوں کو بھی چرانے دیں
چھوٹ دے دیں زبان کو اپنی
نام لے کر ترا بلانے دیں
آکے سرگوشیاں کرے ہم سے
اس کو اتنا قریب آنے دیں
گل کریں خواب کے چراغوں کو
چاند تاروں کو نیند آنے دیں
منش شکلا
No comments:
Post a Comment