غزل
کوئی تلاش ادھوری سی رہ گیئ مجھ میں
کھٹک رہی ہے کسی بات کی کمی مجھ میں
بہت وسیع ہے میرے غموں کی پہنائ
پناہ مانگنے لگتی ہے ہر خوشی مجھ میں
کہاں ہے سہل کسی لفظ کا رواں ہونا
ٹھہر گیئ ہے بڑی سخت خامشی مجھ میں
سفر کی رسم نبھانے کو چل رہا ہوں میں
وگرنہ تاب سفر اب کہاں بچی مجھ میں
خیال و خواب پہ کائی سی جم گئ آخر
ازل سے ٹھہری ہوئی ہے کوئی ندی مجھ میں
عجیب رنگ رہا دل کے کارخانے کا
نہ روشنی ہی سلامت نہ تیرگی مجھ میں
وہ آسماں ہوں کہ ماتم نصیب ہے جس کا
ستارے روز ہی کرتے ہیں خودکشی مجھ میں
وہ ایک بار مرے ساحلوں پہ اترا تھا
پھر اس کے بعد فقط ریت رہ گئی مجھ میں
منش شکلا
No comments:
Post a Comment