غزل
ہر منظر کا مول چکانا پڑتا ہے
آنکھوں کو اک دن پتھرانا پڑتا ہے
منزل تک سب دشت زدہ ہو جاتے ہیں
رستے میں اتنا ویرانہ پڑتا ہے
جو باتیں لا حاصل ٹھہریں پہلے بھی
ان باتوں کو ہی دہرانا پڑتا ہے
خواہش ہے اپنا قصّہ لکھ دیں لیکن
بیچ میں تیرا بھی افسانہ پڑتا ہے
جھوٹ کے اپنے خمیازے تو ہوتے ہیں
لیکن سچ پر بھی جر مانہ پڑتا ہے
گرویدہ ہونا پڑتا ہے ہر شے پر
پھر ہر اک شے سے اکتانا پڑتا ہے
بستی ہم میں سنّاٹے بھر دیتی ہے
صحرا صحرا شور مچانا پڑتا ہے
منش شکلا
No comments:
Post a Comment