غزل
ماضی میں کھلنے والے ہر باب سے لپٹی رہتی ہیں
جانے والوں کی یادیں اسباب سے لپٹی رہتی ہیں
اہل سفر تو گم ہو جاتے ہیں جاکر گہرائی میں
کشتی کی ٹوٹی باہیں گرداب سے لپٹی رہتی ہیں
کبھی کبھی کچھ ایسے دلکش منظردکھتے ہیں شب بھر
نیند بھی کھل جائے تو آنکھیں خواب سے لپٹی رہتی ہیں
ترک تعلّق ختم نہیں کر پاتا ہے احساسوں کو
رشتوں کی ٹوٹی کڑیاں احباب سے لپٹی رہتی ہیں
طوفانوں کا زور بہا لے جاتا ہے بنیادوں کو
ریزہ ریزہ تعمیریں سیلاب سے لپٹی رہتی ہیں
اجڑے گھر کی ویرانی کا سوگ منانے کی خاطر
خستہ چھت کی شہتیریں محراب سے لپٹی رہتیں ہیں
اس کو دن بھر تکتے تکتے ڈوب تو جاتا ہے لیکن
سورج کی بجھتی نظریں مہتاب سے لپٹی رہتی ہیں
منش شکلا
Travel And Tour Operators In India Book At Lowest Price At Cheapest Price And Get More Discount. Tour Operators in India
ReplyDeleteThanks a lot
ReplyDelete