فہرست
١ ایک ہی بار میں خوابوں سے کنارا کر
کے
٢ آہٹیں آ رہی ہیں
سینے سے
٣ مخالفین
کو حیران کرنے والا ہوں
تو مجھ کو سن
رہا ہے تو سنائی کیوں نہیں دیتا ٤
تو مجھ کو سن
رہا ہے تو سنائی کیوں نہیں دیتا ٥
جینے
سے انکار کیا جاتا ہے کیا ؟ ٦
٧ بہلنے لگی ہے ذرا سی نمی
سے
٨ رات
کو اب بری کیا جاے
٩ گھبرا کر افلاک
کی دہشت گردی سے
١٠ ہم سفر تو
مرا خیال نہ کر
١١ آؤ ہم تم دونوں مل کر
دنیا کو ٹھکراتے ہیں
محبّت
کی فراوانی مبارک ١٢
١٣ ہر صلاح دنیا کی درکنار
کی ہمنے
دل میں جانے ١٩کیا کیا آنے
لگتا ہے ١٤
ایک کحرام سا ہر وقت اٹھاے رکھیں ١٥
١٦ گر ادھر چلے آتے تم کسی بہانے سے
١٧ حسیں خوابوں کے بستر سے اٹھانے آ گئے شاید
١٨ ہمنے اپنے غم کو دہرایا
نہیں
١٦ ہر منظر کا مول
چکانا پڑتا ہے
ہر کسی کے سامنے تشنلابی
کھلتی نہیں١٧
١٨ ہماری بے گناہی کے سبھی اثبات رکھے ہیں
١٩ جب
آسمان کا سمجھے نہیں اشارہ
تم
٢٠ جانے کس شے کے طلبگار ہوئے جاتے ہیں
آنکھوں کو پر نم حسرت
کا دروازہ وا رکھا ہے٢١ ا
٢٢ تنی جلدی نہ مان جایا کر
٢٣ اگر سچ ہو گیئ میری دعا تو
٢٤ انھیں ہاتھوں سے اپنی زندگی کو چھو کے دیکھا تھا
دل برہم کی خاطر
مدّعا کچھ بھی نہیں ہوتا ٢٥
٢٦ دن کا لاوا پیتے پیتے آخر جلنے لگتا ہے
٢٧ بات کہنے کی چھپانی تھی ہمیں
٢٨ آخری بیانوں میں اور نہ پیشخوانی میں
٢٩ کام بے کار کے کئے ہوتے
٣٠ جانے کس رنگ نے لکھا ہے مجھے
٣١ کسی کے عشق میں برباد ہونا
٣٢ کتنی
شدّت سے طلب
کرتے ہیں ہم
٣٣ کتنی عجلت میں مٹا ڈالا
گیا
٣٤ نیکی بدی میں پڑ کے
پریشان ہو گیا
٣٥ روشنی اور رنگ
کے رقصاں سرابوں کی طرف
٣٧ سب کو الجھن میں ڈال رکھا ہے
٣٨ سنجیدگی سے سوچنے بیٹھا تو ڈر گیا
٣٩ تمھیں آزاد کرتے ہیں یہاں سے
٤٠ یہ سب جو ہو رہا ہے وہ تو پہلے بھی ہوا تھا
٤١ اسنے ممکن ہے آزمایا ہو
٤٢ تماشا ختم ہو جانے کے تھوڈا بعد آتے ہو
٤٣ سخن بیمار ہوتا جا رہا ہے
٤٤ پیروں کی من مانی میں ہم
٤٥ ماضی میں کھلنے والے ہر باب سے لپٹی رہتی ہیں
کچھ اداسی شام کی ہلکی کرو٤٦
٤٧ بکھرنے کا ارادہ کر رہے ہیں
جب آنگن میں شام اترنے لگتی ہے٤٨
٤٩ کبھی غم کبھی شادمانی کا شکوہ
٥٠ جرم کا انکشاف کرنا ہے
٥١ کئی چہرے سلامت ہیں کئی یادیں سلامت ہیں
٥٢ سفینے کو بچانا بھی ضروری
٥٣ تم اپنے خوابوں کے پیچھے یار مرے حیران بہت ہو
تمہاری داستانوں کے بہانے لکھ رہے ہیں ہم٥٤
اس کی محفل میں جا کے
لوٹ اے٥٥
٥٦ تجھ تک آنے جانے میں ہی ٹوٹ گئے
٥٧ سوچتے
ہیں کہ دل لگانے دیں
٥٨ کسی کردار کے تیور کبھی شل ہو نہیں سکتے
٥٩ برہمی کے شور میں سرگوشیاں بیکار ہیں
٦٠ کبھی ضد پر اتر آتے کبھی حد سے گزر جاتے
٦١ کہنے کو رکھ رکھاؤ ترا بے مثال ہے
٦٢ درد دل زخم جگر پر کوئی
٦٣ حوصلہ اب ناتواں ہونے لگا
٦٤ چاند ستارے مٹھی میں تھے سورج سے یارانہ تھا
٦٥ غم خوشی اچھا برا سب ٹھیک تھا
اور زیادہ
سنجیدہ ہو کر لوٹے٦٦
خاک بستہ شہاب
کتنے تھے٦٧
٦٨ اک خواب چھن سے ٹوٹ کے آنکھوں میں گڈ گیا
٦٩ خیالوں کا فلک احساس کے تاروں سے جڑنے میں
٧٠ کس قدر لا علاج تھے ہم
بھی
٧١ کسی بھی شے پہ آ جانے میں کتنی دیر لگتی
ہے
٧٢ کوئی سمجھے تو کیا سمجھے مرے غم
کے معنی بھی
٧٣ کوئی تلاش ادھوری سی رہ گیئ مجھ
میں
٧٤ کچھ
پوشیدہ زخم عیاں ہو سکتے تھے
٧٥ بنی ہے دہشتوں کی اک اندھیری جھیل مجھ
میں
٧٦ لغزش کا اعلان
کیا ہم دونوں نے
٧٧ منتشر کرکے کبھی خود کو
مرتب کرکے
٧٨ پا ب زنجیر تھیں حالات کی
ماری چیخیں
٧٩ سفر کے ختم کا امکان ہے
کیا
٨٠ سحر سے شام رہتی ہے یہی
مشکل مرے آگے
سر و سامانیوں
میں جی رہے ہو٨١
٨٢ سو
کردار نبھانے پڑتے ہیں ہم کو
صرف بیاباں بچتا ہم
میں بالکل جنگل ہو جاتے٨٣
ستاروں کی صفوں
کو تاکتے رہنا قیامت تک٨٤
٨٥ تمام درد کو
چہرے پہ اقتباس کیا
٨٦ دشت میں خاک اڑانے سے کہاں تک بچتے
٨٧ زندگی کے
سرور تھے تجھ سے
٨٨ دل بھی جیسے ہمارا کمرہ
تھا
٨٩ اچانک آج
بھلا کیا دکھا انہیں تم میں