ہمسفر اوب چکا ہے مجھ سے
راستہ پوچھ رہا ہے مجھ سے
ایک ناکام سی شناسائی
بس یہی کام ہوا ہے مجھ سے
کیوں مجھے دیکھ رہا ہے ایسے
کیا ترا درد سوا ہے مجھ سے
کیوں مرے طور آزماتا ہے
تیرا کردار جدا ہے مجھ سے
تو کیوں ظاھر پہ غور کرتا ہے
تو تو اندر سے جڑا ہے مجھ سے
تو فراموش کر خطا میری
تیرا درجہ تو بڑا ہے مجھ سے
اس پہ رہ رہ کے پیار آتا تھا
وہ یوں رہ رہ کے لڑا ہے مجھ سے
میری قسمت ہے کہ میں ہوں پانی
آگ بیکار خفا ہے مجھ سے
میرے مرتے ہی قیامت ہوگی
میں ہی محشر ہوں خدا ہے مجھ سے
میرے مرتے ہی قیامت ہوگی
میں ہی محشر ہوں خدا ہے مجھ سے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment