آنکھوں کو پر نم حسرت کا دروازہ وا رکھا ہے
اپنے ٹوٹے خواب کو ہم نے اب تک زندہرکھا ہے
عشق کیا تو ٹوٹ کے جی بھر نفرت کی تو شدّت سے
اپنے ہر کردار کا چہرہ ہم نے اجلا رکھا ہے
جو آیا بازار میں وہ بس جانچ پرکھ کر چھوڈ گیا
ہم نے خود کو سوچ سمجھ کر تھوڑا مہنگا رکھا ہے
تھا اعلان کہانی میں اک روز ندی بھی آےگی
ہم نے اس امید میں اب تک خود کو پیاسا رکھا ہے
ہم کو ہر چہرے کے پیچھے سو سو چہرے دکھتے ہیں
قدرت نے آنکھوں میں جانے کیسا شیشہ رکھا ہے
اکثر شیریں کی چاہت نے کوہ کنی کروائی ہے
اکثر پربت کے سینے پر ہم نے تیشہ رکھا ہے
ہم کو اب خود رستہ چل کر منزل تک پہنچاےگا
کاندھوں پر سورج ہے اپنے سر پر سایہ رکھا ہے
ہم سے باتیں کرنے والے الجھن میں پڑ جاتے ہیں
ہم نے اپنے اندر خود کو اتنا بکھرا رکھا ہے
تم نے لہجہ میٹھا رکھ کر تیکھی باتیں بولی ہیں
ہم نے باتیں میٹھی کی ہیں لہجہ تیکھا رکھا ہے
دنیا والوں نے تو پوری کوشش کی ٹھکرانے کی
لیکن اپنی ضد میں ہم نے خود کو منوا رکھا ہے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment