راستوں پر عذاب بیٹھے تھے
گھر میں خانہ خراب بیٹھے تھے
مشورے دے رہے تھے اندھیارے
سر نگوں آفتاب بیٹھے تھے
رات پر بھی شباب طاری تھا
ہم بھی ہونے خراب بیٹھے تھے
کتنا رنگین تھا مرا صحرا
کیسے کیسے سراب بیٹھے تھے
اسکی آنکھوں سے اڈ گیں نیندیں
اسکی آنکھوں پہ خواب بیٹھے تھے
ایک صفحے پہ روک گئے آکر
پڑھنے دل کی کتاب بیٹھے تھے
کتنے غم یک بیک ابھر اے
رخ پہ ڈالے نقاب بیٹھے تھے
منیش شکلا
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment