نیکی بدی میں پڑ کے پریشان ہو گیا
دل کاروبار زیست میں حیران ہو گیا
جاتی بہار لے گیی سبزہ درخت کا
دور خزاں میں ٹوٹنا آسان ہو گیا
کیسی عجیب بستیاں تعمی ر ہو گیئں
یہ کیا ہوا کہ شہر بیابان ہو گیا
امید کا کھنڈر تھا جو دل میں وہ ڈھہ گیا
یہ دشت آج ٹھیک سے ویران ہو گیا
اک زخم کا چراغ تھا روشن وہ بجھ گیا
سونا ہمارے درد کا ایوان ہو گیا
اک لفظ نے خودی کے معنی بدل دے
اک لفظ کائنات کا عنوان ہو گیا
جو غلبہ جنوں میں کہا درج کر لیا
دیوانہ آج صاحب دیوان ہو گیا
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment