اچانک آج بھلا کیا دکھا انہیں تم میں
بلا کا کرب ہے احباب کے تبسّم میں
ہم اپنے درد کا ہر درس پار کر آے
پڑے ہوئے ہیں ابھی تک صنم تللُم میں
بلا کی پیاس تھی دریا کا رخ نہیں سمجھے
الجھ کے بہ گئے ہم تیز رو تلاطم میں
تو مجھ سے آنکھ ملانے سے بچ رہا ہے دوست
کوئی تو راز نہاں ہے ترے تکلّم میں
ہمارے پاس بھی ہوتے اگر پری قصّے
سناتے آپ کو ہم بھی غزل ترنّم میں
سبھی کو غرق ہی ہونا ہے ایک دن پھر بھی
الجھ رہے ہیں سفینے عبث تصادم میں
ہمیں فرار کی خواہش اسی جہنّم سے
ہمیں قرار بھی حاصل اسی جہنّم میں
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment