کچھ پوشیدہ زخم عیاں ہو سکتے تھے
اس سے ملکر درد رواں ہو سکتے تھے
ان آنکھوں کو دیر تلک دیکھا ہوتا
ان آنکھوں میں خواب نہاں ہو سکتے تھے
تم نے ایک ستارے کو دنیا سمجھا
اس کے آگے اور جہاں ہو سکتے تھے
تم تو پہلے دروازے سے لوٹ اے
بستی میں کچھ اور مکاں ہو سکتے تھے
رفتہ رفتہ آ پہنچے ویرانے تک
ہم دیوانے اور کہاں ہو سکتے تھے
ہر صورت بنتی تھی اور بگڑتی تھی
اس عالم میں صرف گماں ہو سکتے تھے
آگ ہوا اور پانی ہی سرمایہ تھا
حد سے حد ہم لوگ دھواں ہو سکتے تھے
منش شکلا
No comments:
Post a Comment