روشنی اور رنگ کے رقصاں سرابوں کی طرف
آؤ تم کو لے چلیں ہم اپنے خوابوں کی طرف
کیسی کیسی محفلیں برپا کے بیٹھے ہیں ہم
دیکھ لو آکر کبھی اپنے خرابوں کی طرف
بھول بیٹھے تھے زمیں کے آدمی کی سرحدیں
ہم بھی مایل ہو گئے تھے ماہتابوں کی طرف
اک مسلسل بیکلی خدشہ عجب سی شورشیں
غور سے دیکھو کبھی روشن شھابوں کی طرف
زندگی پہلے سوالوں پر ہمارے ہنس پڑی
پھر اشارہ کر دیا سوکھے گلابوں کی طرف
ہم کتابوں سے نکل کر زندگی پڑھنے گئے
تھک کے لیکن لوٹ اے پھر کتابوں کی طرف
ہم کبھی ٹے ہی نہیں کر پاے اپنی قیفیت
کب گناہوں کی طرف ہے کب سوابوں کی طرف
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment