کبھی ضد پر اتر آتے کبھی حد سے گزر جاتے
اگر یکجائی مشکل تھی تو بہتر تھا بکھر جاتے
کبھی تم نے ته دل سے مداوا ہی نہیں چاہا
وگرنہ زخم ایسے تھے کہ چھونے سے ہی بھر جاتے
محبّت کا بھرم رکھے رہیں محرومیاں ورنہ
میسّر ہو گئے ہوتے تو ہم دل سے اتر جاتے
کوئی رہتا نہیں اب اس گلی میں جاننے والا
مگر ڈرتا ہے اب بھی دل نہ جانے کیوں ادھر جاتے
کسی صورت نکلتی تو ترے دیدار کی صورت
تو ہم تجھ سے نہ ملنے کی قسم سے بھی مکر جاتے
یہی اک آستانہ ہے زمانے میں خرابوں کا
ترے در تک نھیں آتے تو دیوانے کدھر جاتے
بگڈ کر ٹھیک ہونے نے ہمیں برباد کر ڈالا
بگڑتے ہی گۓ ہوتے تو ممکن تھا سنور جاتے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment