جب آفتاب مری دھجیاں اڈا دیگا
تب آ کے چاند مجھے چاندنی اڑھا دیگا
میں پھر زمیں کی نصیحت کو بھول جاؤنگا
ہوا کے دوش پہ مجھ کو وہ پھر چڈھا دیگا
میں رو کے اور اسے مطمین کر دونگا
وہ ہنس کے اور مرے درد کو بڑھا دیگا
عجیب ڈھنگ سے کرتا ہے رو برو مجھ کو
یہ آئینہ تو مجھے خود سے ہی لڑا دیگا
عجیب ڈھنگ سے کرتا ہے رو برو مجھ کو
یہ آئینہ تو مجھے خود سے ہی لڑا دیگا
یہ جو وجود کے دھبّے ہیں ان کا کیا ہوگا ؟
ردا کے داغ تو مانا کوئی چھڈا دیگا
پھر اس کے بعد اسی کی زباں میں بولوگے
وہ چند روز میں سارے سبق پڑھا دیگا
زباں کو بیندھ کے رکھ دیگا ایک لمحے میں
نظر کا تیر وہ چہرے پہ جب گڑا دیگا
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment