زندگی سے پیار کر بیٹھے تھے ہم
ہاں کبھی اقرار کر بیٹھے تھے ہم
پھر سفر کا لطف ہی جاتا رہا
راستہ ہموار کر بیٹھے تھے ہم
بے جھجھک اقرار کرنا تھا جہاں
بے سبب انکار کر بیٹھے تھے ہم
جسم ہی کی پرسشیں کرتے رہے
روح کو بے بیکار کر بیٹھے تھے ہم
لذّتیں جاتی رہیں تعبیر کی
خواب کو بازار کر بیٹھے تھے ہم
پھر ہمارا دن بہت برہم رہا
رات کو بیزار کر بیٹھے تھے ہم
ہم کو جنّت سے نکالا کیوں گیا ؟
عشق کا اظہار کر بیٹھے تھے ہم
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment