منتشر کرکے کبھی خود کو مرتب کرکے
ہمنے دیکھا ہے کئی بار یہی سب کرکے
شام ہوتے ہی بیاباں میں بدل جاتے ہیں
دن کے ہنگام کا ہر نقش مخرّب کرکے
اپنے خوابوں کو چمنزار بنا لیتے ہیں
اپنی راتوں کو ترے غم سے متیّب کرکے
اپنی تنہائی میں ہر روز چھلک لیتے ہیں
اپنے احساس کے کاسے کو لبالب کرکے
اپنی یکرنگ طبیعت کو رواں کرتے ہیں
سرکشی کرکے کبھی خود کو مہزب کرکے
روز ہم خود سے سوالات کیا کرتے ہیں
جانے کس کس کو خیالوں میں مخاطب کرکے
ہم سناتے ہی چلے جاتے سحر تک لیکن
تمنے قصّہ کیا دشوار کہاں کب کرکے
کوئی پہنچے نہ جہاں دیکھنے والا ہرگز
ہمنے رکھا ہے وہاں خود کو مرجب کرکے
اک سیاہی سی نگاہوں میں اتر آےگی
دن کو دیکھوگے اگر روز یوں ہی شب کرکے
منش شکلا
No comments:
Post a Comment