کبھی غم کبھی شادمانی کا شکوہ
سبھی کے لبوں پر کہانی کا شکوم
کبھی ہے معنی کے غل سے گلا اور
کبھی لفظ کی بیزبانی کا شکوہ
سفر ہی سے بیزار تھی یہ طبیعت
بھلا کیا کریں ناتوانی کا شکوہ
کنارے پہ ہم ریت سے بدگماں تھے
سمندر میں ہے گہرے پانی کا شکوہ
جنہونے مسلسل رلایا ہے ہمکو
وہی کر رہے سرگرانی کا شکوہ
جو قسمت کو منظور تھا وہ ہوا بس
عبث ہے عبث جانفشانی کا شکوہ
شراروں کی تحریر دیکر ہمیں اب
وہ کرتے ہیں شعلہ بیانی کا شکوہ
نہیں زیب صحرا نوردوں کو ہرگز
برہنہ سری لامکانی کا شکوہ
منش شکلا
No comments:
Post a Comment