تمہاری داستانوں کے بہانے لکھ رہے ہیں ہم
حصار ذات کے تاریک خانے لکھ رہے ہیں ہم
ابھی تک لکھ رہے تھے صرف زخموں کا پتا لیکن
اب اپنے درد کے سارے ٹھکانے لکھ رہے ہیں ہم
ہمارے حال پر کوئی ترس کہاہے تو کیا کہاہے
ہجوم یاس میں بیٹھے ترانے لکھ رہے ہیں ہم
ہمیں خوابوں کی دنیا تو میسّر ہو نہیں پائی
مگر خوابوب کی دنیا پر فسانے لکھ رہے ہیں ہم
غزل کہنے کی کوشش کر رہے ہیں دھوپ میں جلکر
نئی نسلوں کی خاطر شامیانے لکھ رہے ہیں ہم
چلو پھر زندگی میں اک نیا کردار لے آئیں
کئی دن سے وہی قصّے پرانے لکھ رہے ہیں ہم
حقیقت تو ہمیں اجڑے مناظر ہی دکھاتی ہے
مگر سپنے نہ جانے کیوں سہانے لکھ رہے ہیں ہم
ہمیں سنجیدگی سے درج کرنا ہے ہر اک لمحہ
کتاب وقت میں اپنے زمانے لکھ رہے ہیں ہم
منش شکلا
No comments:
Post a Comment