ہر صلاح دنیا کی درکنار کی ہمنے
خواب کے اشارے پر جاں نثار کی ہمنے
یہ الگ ترے در پر آج تک نہیں اے
یوں تری تمنّا تو بےشمار کی ہمنے
کچھ نہیں ہوا حاصل اس جہانوردی سے
بے سبب ردا اپنی داغدار کی ہمنے
پھربہل رہے ہیں ہم عارضی کھلونوں سے
پھر فرار کی صورت اختیار کی ہمنے
اس قدر مسلّط تھا یاس کا سبق ہم پر
قہقہوں کی پرسش بھی سوگوار کی ہمنے
چار دن ہنسے بولے ہمنوا اسیروں سے
اور پھر وہی حالت برقرار کی ہمنے
اور سبسے تو بولے خوشخرام لہجے میں
بات جب بھی کی خود سے دلفگار کی ہمنے
کس قدر مخالف تھی اپنے اصل چہرے سے
وہ جو شکل دنیا پہ آشکار کی ہمنے
بارہا گرے آکر زندگی کے قدموں پہ
روٹھنے کی کوشش تو بار بار کی ہمنے
منش شکلا
No comments:
Post a Comment