انھیں ہاتھوں سے اپنی زندگی کو چھو کے دیکھا تھا
وہ سپنا تھا یا پھر مینے کسی کو چھو کے دیکھا تھا
کئی رنگوں کے منظر آج بھی رقصاں ہیں آنکھوں میں
مری نظروں نے ایسی سادگی کو چھو کے دیکھا تھا
عجب سی آگ میں جلنے لگا سارا بدن میرا
مرے ہوٹھوں نے اسکی تشنگی کو چھو کے دیکھا تھا
کسی کے لمس کا جادو مری رگ رگ میں اترا تھا
مرے احساس نے دیوانگی کو چھو کے دیکھا تھا
فقط اک بار مینے چاند کی زلفیں سنواری یتھیں
فقط اک بار مینے روشنی کو چھو کے دیکھا تھا
بھلا کس کو یقیں آےگا میری بات پر لیکن
کبھی مینے مجسّم چاندنی کو چھو کے دیکھا تھا
پگھل کر به گئے بیباک لہروں کے اشاروں پر
کناروں نے عبث چڑھتی ندی کو چھو کے دیکھا تھا
منش شکلا
No comments:
Post a Comment