بنی ہے دہشتوں کی اک اندھیری جھیل مجھ میں
تمھارے خوف سارے ہو گئے تحلیل مجھمیں
میں کرتا ہی رہا یکجہ تمنّا کے عناصر
ہزاروں خواب ہوتے ہی گئے تشکیل مجھ میں
ارادے تو دل نادان کرتا تھا مسلسل
اگرچہ ہو نہیں پایا کوئی تکمیل مجھ میں
سیاہی شام کی لیکر وہ اترا خلوتوں میں
پھر اسنے نقش کر دی رات کی تفصیل مجھ میں
مرے بارے میں اتنا غور فرمانے لگے ہو
کہیں تم ہو نہ جاؤ ہو بہو تبدیل مجھ میں
زمانہ تو مرے اندر کشادہ ہو رہا ہے
مسلسل ہو رہا ہوں میں مگر تقلیل مجھ میں
مجھے اب روشنی کے ساتھ ہی رہنا پڑیگا
جلا کر رکھ گیا وہ پیار کی قندیل مجھ میں
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment