سخن بیمار ہوتا جا رہا ہے
بہت دشوار ہوتا جا رہا ہے
کبھی جو راحت جاں مشغلہ تھا
وہ اب آزار ہوتا جا رہا ہے
سمجھ میں آ گیا چاراگروں کی
مرض بیکار ہوتا جا رہا ہے
چبھا ہے پاؤں میں کانٹا خرد کا
جنوں بیدار ہوتا جا رہا ہے
تماشے سا تماشا ہے ہمارا
سر بازار ہوتا جا رہا ہے
پرانا زخم بھرنے کے جتن میں
نیا تییار ہوتا جا رہا ہے
کبھی جس پر عقیدہ تھا ہمارا
وہ بت مسمار ہوتا جا رہا ہے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment