دل میں جانے کیا کیا آنے لگتا ہے
بیٹھے بیٹھے جی گھبرانے لگتا ہے
آنے والے کل سے دہشت ہوتی ہے
ماضی کا ہر عکس ڈرانے لگتا ہے
اندر سے آوازیں آنے لگتی ہیں
کوئی سب کچھ یاد دلانے لگتا ہے
اپنی ساری پرتیں کھلنے لگتی ہیں
بھولا بسرا سب یاد آنے لگتا ہے
سونے گلیاروں سے ڈرکر ذہن مرا
اپنے تہخانوں میں جانے لگتا ہے
اک جنگل سا گھ ر آتا ہے شام ڈھلے
ایک پرندہ شور مچانے لگتا ہے
آنکھوں میں کالکھ سی بھرنے لگتی ہے
جب شب کا سیا گھہرانے لگتا ہے
کوئی پہلے پھوٹ کے روتا ہے جی بھر
پھر خود ہی خود کو سمجھانے لگتا ہے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment