برہمی کے شور میں سرگوشیاں بیکار ہیں
اب ہمارے بیچ کی نزدیکیاں بیکار ہیں
اب تری خاموشیاں پڑھنے کی قووت کھو گی
اب لب خاموش کی سب عرضیاں بیکار ہیں
جانے کتنے خواب آکر مل گئے اک خواب میں
اب ہماری رات کی تنہائیاں بیکار ہیں
اب کوئی دریا ہمارے درمیاں بہتا نہیں
اب ہمارے ساحلوں کی کشتیاں بیکار ہیں
اب چمن کے پھول کھلنے پر ہی آمادہ نہیں
اب بہاروں کی یہ ساری شوخیاں بیکار ہیں
اب چراغاں ہی نہیں انکی وضاحت کے لئے
اب دیار شام کی تاریکیاں بیکار ہیں
اب کوئی اہل جنوں کو ڈھونڈھنے آتا نہیں
اب گریباں کی بکھرتی دھجیاں بیکار ہیں
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment