سنجیدگی سے سوچنے بیٹھا تو ڈر گیا
کل شب میں اپنے آپ میں گہرے اتر گیا
میں بدحواس ہو کے ٹھگا سا کھڈا رہا
یوم حیات شور مچاتا گزر گیا
دیکھا جو آئینہ تو نگاہوں کے سامنے
یک لخت ریگزار کا نقشہ ابھر گیا
جسکے لئے صلیب اٹھائی تھی جسم کی
وہ لمس میرے ہاتھ لگاتے ہی مر گیا
میں نے تمھارے واسطے باہیں تو کھول دیں
لیکن مرا تمام اثاثہ بکھر گیا
صدیاں گزر چکی ہیں نگاہوں کی راہ سے
کتنا غبار وقت کی آنکھوں میں بھر گیا
چلنا تو دور ٹھیک سے بیٹھے نہیں کہیں
رستے کے انتظام میں سارا سفر گیا
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment