دن کا لاوا پیتے پیتے آخر جلنے لگتا ہے
ہوتے ہوتے شام سمندر روز ابلنے لگتا ہے
ضبط دھواں ہونے لگتا ہے انگاروں کی بارش میں
پھول سا لہجہ بھی اکتا کر آگ اگلنے لگتا ہے
تعبیروں کے چہرے دیکھ کے وحشت ہونے لگتی ہے
نیند میں کوئی ڈر کر اپنے خواب کچلنے لگتا ہے
مشکل یہ ہے وقت کی قیمت تب پہچانی جاتی ہے
جب ہاتھوں سے لمحہ لمحہ وقت پھسلنے لگتا ہے
یہ بھی ہوتا ہے غم کے مفہوم بدلتے جاتے ہیں
یوں بھی ہوتا ہے اشکوں کا رنگ بدلنے لگتا ہے
نم جھونکے نمکین ہوا کے جسم میں گھلتے جاتے ہیں
پتھر کیسا بھی ہو آخرکار پگھلنے لگتا ہے
بوند کو دریا میں کھو دینا اتنا بھی آسان نہیں
مدہوشی تک آتے آتے ہوش سمبھلنے لگتا ہے
منیش شکلاں
No comments:
Post a Comment