غزل
جانے کس شے کے طلبگار ہوئے جاتے ہیں
کھیل ہی کھیل میں بیمار ہوئے جاتے ہیں
قافلہ درد کا چہرے سے گزر جاتا ہے
ضبط کرتے ہیں تو اظہار ہوئے جاتے ہیں
کون سے خواب سجا بیٹھے ہیں ان آنکھوں میں
کن امیدوں کے گرفتار ہوئے جاتے ہیں
دن گزرتا ہے عبث رات گزر جاتی ہے
رفتہ رفتہ یوں ہی بے کار ہوئے جاتے ہیں
راستے جو کبھی ہموار نظر آتے تھے
دیکھتے دیکھتے دشوار ہوئے جاتے ہیں
توبہ کرنا جو ضروری ہے عبادت کے لئے
تو خطا کر کے گنہگار ہوئے جاتے ہیں
جتنا کھلتے ہیں ادھر اتنی گرہ پڑتی ہے
ہم کہ ہر روز طرحدار ہوئے جاتے ہیں
کوئی گھٹتا ہی چلا جائے ہے پیہم ہم میں
اپنے اوپر ہی گرانبار ہوئے جاتے ہیں
منش شکلا
No comments:
Post a Comment