اور زیادہ سنجیدہ ہو کر لوٹے
میلے سے ہم رنجیدہ ہو کر لوٹے
تیرے شیدائی تیرے الطاف کے بعد
اپنے اوپر گرویدہ ہو کر لوٹے
اتنی طغیانی تھی نیند کے ساحل پر
سارے سپنے نمدیدہ ہو کر لوٹے
پہلے ہمنے دوڈ لگایی سورج تک
پھر دھرتی پر نادیدہ ہو کر لوٹے
تو دعویٰ کرتا تھا سہل بنانے کا
لیکن ہم تو پیچیدہ ہو کر لوٹے
کچھ لمحے جو صرف خیالوں میں گزرے
وہ خوابوں میں پوشیدہ ہو کر لوٹے
کوئی ان سے ملکر شاید رویا تھا
ابکے موسم بوسیدہ ہو کر لوٹے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment