فقیرانہ طبیعت تھی بہت بیباک لہجہ تھا
کبھی مجھمیں بھی ہنستا کھیلتا اک شخص رہتا تھا
بگولے ہی بگولے ہیں مری ویران آنکھوں میں
کبھی ان ریگزاروں میں کوئی دریا بھی بہت تھا
تجھے جب دیکھتا ہوں تو خود اپنی یاد آتی ہے
مرا انداز ہنسنے کا کبھی تیرے ہی جیسا تھا
کبھی پرواز پر میری ہزاروں دل دھڑکتے تھے
دعا کرتا تھا کوئی تو کوئی خشباش کہتا تھا
کبھی ایسے ہی چھائی تھیں گلابی مجھ پر
کبھی پھولوں کی صحبت سے مرا دامن بھی مہکا تھا
میں تھا جب کارواں کے ساتھ تو گلزار تھی دنیا
مگر تنہا ہوا تو ہر طرف صحرا ہی صحرا تھا
بس اتنا یاد ہے سویا تھا اک امید سی لیکر
لہو سے بھر گیی آنکھیں ن جانے خواب کیسا تھا
منش شکلا