بعض اوقات بھی نہیں کرتے
اب تری بات بھی نہیں کرتے
ایک تو دھوپ چھین لی اس پر
ابر برسات بھی نہیں کرتے
اب کوئی اجنبی نہیں لگتا
اب ملاقات بھی نہیں کرتے
کتنا کچھ بھر گیا ہے سینے میں
اور ہم بات بھی نہیں کرتے
ہم اگر تجھ سے بد گماں ہو تے
تو سوالات بھی نہیں کرتے
وہ ہی سارے فساد کی جڈ ہیں
اور فسادات بھی نہیں کرتے
شب کی تنہائیوں کی خواہش ہے
دشت میں رات بھی نہیں کرتے
منیش شکلا
No comments:
Post a Comment