جو ابھی تک نہیں کہا کہتے
کاش اک شعر تو نیا کہتے
تو ہی قصّے میں جا بجا ہوتا
تیرا قصّہ ہی جا بجا کہتے
تم تو خاموش ہو گئے مل کر
یار کچھ تو بھلا برا کہتے
سب کی آواز مختلف نکلی
ہم کسے اپنا ہم نوا کہتے
ایک لمحہ نہ مل سکا ایسا
جس کو صدیوں کا سلسلہ کہتے
ہوش باقی جو رہ گیا ہوتا
تیری آنکھوں کو مے کدہ کہتے
کاش بےکار ہو گئے ہوتے
سب ہمیں کچھ تو کام کا کہتے
جو بھی ہو زندگی ہماری ہے
شرم آتی ہے بد مزہ کہتے
اپنی پلکیں جھپک گیں ورنہ
لوگ ہم کو بھی دیوتا کہتے
منیش
No comments:
Post a Comment